Saturday, 16 February 2019

عشر واجب ھونے کے لئے کم از کم مقدار

عشر واجب ھونے کے لئے کم از کم مقدار

عشر واجب ھونے کے لئے کم از کم مقدار


سوال: عشر واجب ہونے کے لئے غلہ, پھل اور سبزیوں کی کم از کم کتنی مقدار ہونا ضروری ہے؟

جواب: عشر واجب ہونے کے لئے ان کی کوئی مقدار مقرر نہیں ہے بلکہ زمین سے غلہ, پھل اور سبزیوں کی جتنی پیداوار بھی حاصل ہو اس پر عشر یا نصف عشر دینا واجب ہو گا. 

Labels:

Friday, 15 February 2019

کس پیداوار پر عشر واجب نھیں؟

7
کس پیداوار پر عشر واجب نھیں؟

کس پیداوار پر عشر واجب نھیں؟

سوال: کن فصلوں پر عشر واجب نہیں؟

جواب: جو چیزیں ایسی ہوں کہ ان کی پیداوار سے زمین کا نفع حاصل کرنا مقصود نہ ہو ان میں عشر نہیں جسیے ایندھن, گھاس,  بید,  سرکنڈا, جھاؤ (وہ پودا جس سے ٹوکریاں بنائی جاتی ہیں),  کھجور کے پتے وغیرہ,  ان کے علاوہ ہر قسم کی ترکاریوں اور پھلوں کے بیج کہ ان کی کھیتی سے ترکاریاں مقصود نہیں ہوتے اور جو بیج دوا کے طور پر استعمال ہوتے ہیں مثلًا کندر, میتھی,  اور کلوانجی وغیرہ کے بیج, ان میں بھی عشر نہیں ہے. اسی طرح وہ چیزیں جو زمین کے تابع ہوں جیسے درخت اور جو چیز درخت سے نکلے جیسے گوند اس میں عشر واجب نہیں.

البتہ اگر گھاس,  بید, جھاؤ ( وہ پودا جس سے ٹوکریاں بنائی جاتی ہیں ) وغیرہ سے زمین کے منافع حاصل کرنا مقصود ہو اور زمین ان کے لئے خالی چھوڑ دی تو ان میں بھی عشر واجب ہے. کپاس اور بینگن کے پودوں میں عشر نہیں مگر ان سے حاصل کپاس اور بینگن کی پیداوار پر عشر ہے. 

Labels:

Tuesday, 12 February 2019

First love letter of a girl

🌱السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ🌱

⬅ایک نوجوان لڑکی کا پہلا لو لیٹر ’’ First Love Letter of a Girl‘‘

First love letter of a girl


ایک لڑکی کا پہلا لو لیٹر
اس دن جب گلی میں میں کھڑا تھا تو ایک لڑکا ایک گھر کے باہر باربار چکر لگا رہا تھا۔میں نے اس سے جا کے پوچھا بھائی کس کی تلاش ہے تو اس نے کہا کسی کی نہیں بس ایک دوست نے ادھر آنے کا وقت دیا وہ ابھی تلک آیا نہیں۔ خیر میں اس کی بات سن کے گھر چلا گیا اور کچھ لمحوں بعد اچانک سے نکلا تو میں نے دیکھا اسی گھر سے ایک لڑ کی سر جھکائے تیزی سے باہر آئی اور جلدی سے اس لڑکے کو ایک لفافہ دے کرگھر بھاگ گئی۔ لڑکا وہ لفافہ لے کر بہت ہی مسکرایا اور اسے دل سے لگاتا ہوا وہاں سے چل دیا میں اپنی بری عادت کے مطابق تحقیق کرنے کے لیے اس کے پیچھے چل دیا وہ لڑکا ایک درخت کے نیچے جا کر رکا اور اس نے اس لفافہ کو کھولا جس کے اندر سے ایک صفحہ نکلا اس نے اس صفحہ کو کوئی تین سے چار بار چوما اور اپنی آنکھوں سے لگایا اور پڑھنے لگا میں دور سے اس کے چہرے کو اور حرکات کو دیکھ رہا تھا اور اپنی قیاس آرائیوں میں مصروف تھا اچانک سے دیکھا لڑکے نے آسمان کی طرف سر اٹھایا اور بے ہوش ہو کے گر پڑا۔میں بھاگتے ہوئے اس کے قریب گیا اور اس کے ہاتھ سے وہ ورق لے کر تجسس سے پڑھنے لگا۔ یہ ایک خط تھا جو اس لڑکی نے اپنے اس عاشق کو لکھا:
خط…………
السلام علیکم!
اے وہ نوجوان جس نے ابھی اپنی ماں کی گود سے باہر قدم رکھا ہے اور اس کی تربیت کرنے پر تھوک ڈالا ہے میں مانتی ہوں تیری سوچ کے مطابق جس محبت کا تو دعویدار ہے وہ سچی اور پکی ہے اور تو اس کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے وفا بھی کرے گا کیونکہ اس محبت کا آغاز نظر کے ملنے سے ہوا تھا اور انجام جسم کے ملنے پر ہوگا،کیونکہ میری ماں نے اپنے بیٹے عبدالرسول کو ایک دن کہا تھا بیٹا یہ نظر ابلیس کے تیروں میں سے ایک ہے اور جب یہ تیر چلتا ہے نا اس کی طاقت کبھی کبھی پورے پورے خاندان برباد کر دیتی ہے اور پھر جب اس کا بدلا مڑتا ہے تو لفظ عزت بھی سر جھکا کر انسانوں کی بستی سے نکل جاتا ہے۔ لہذا اس آنکھ کو صرف اپنے سوہنے نبیﷺ کے چہرے کو دیکھنے کے لیے منتظر رکھنا ورنہ قیامت کے دن اپنے ماں کو نانا حضور ﷺ کی بارگاہ میں شرمندہ نہ کرنا کہ میں اس بات پر شرم کے مارے ڈوب مروں کہ میں نے تیری تربیت میں کمی چھوڑ دی تھی۔۔تو سن اے خود کو خوبصورت شہزادہ اور مجھے دنیا کی حور سمجھنے والے میں ایک سید زادی ہوں اور میرا تعلق اماں فاطمہ ؓ کے قبیلہ سے ہے جو قیامت کو تمام جنتی عورتوں کی سردار ہوں گی میں نے اپنے لیے دعا مانگی ہے کہ اے اللہ مجھے جنت میں ان کی خادم بنانا تو تو خود فیصلہ کر اگر میں تیری محبت میں مبتلا ہو جاؤں تو خادمیت تو کیا مجھے جنت کے قریب بھی نہیں آنے دیا جائے گا۔۔رہا سوال تو نے جو مجھے کل شام باغ کے اس پیڑ کے نیچے ملنے کو بلایا ہے میں وہاں بھی آجاتی لیکن میں تم سے ایک وعدہ لوں کہ تو اپنی بہن گڈی کو بھی ساتھ لے کر آنا اور میں اپنے بھائی کو۔۔کیونکہ تیری نظر میں دنیا کی سب سے شریف عورت تیری گڈی بہن ہے اور میرے بھائی کی نظر میں دنیا کی سب سے شریف عورت میں ہوں اسطرح دونوں مردوں کی غلط فہمی دور ہو جائے گی اور اس کے بعد جب گاؤں میں یہ خبر پھیلے گی تو کوئی بھائی اپنی بہن کو شریف نہیں سمجھے گا اس طرح آئندہ محبت کرنے والوں پر ہمارا احسان رہے گا کہ یا تو وہ اس گناہ سے ہماری وجہ سے دور رہیں گے یا انہیں ہر طرح کی آسانیا ں ہو جائیں گی رات کے تیسرے پہر کوئی بھائی اپنی بہن کو کسی باغ کے پیڑ کے نیچے ملنے سے نہیں روکے گا۔ پھر جب یہ گناہ اتنا عام ہو جائے گا تو لفظ غیرت کی تعریف بھی سب کو سمجھ آ جائے گی کہ اپنی بہن کی طرف کسی کی نگاہ نہ اٹھنے دینا غیرت نہیں بلکہ اپنی نظروں کو کسی کی بہن کی طرف بڑھنے سے روکنے کا نام غیرت ہے۔۔اور اگر تو اس فلم یا ڈرامے کی بات کرتا ہے جس کو دیکھ کر تو نے مجھے خط لکھا تو ٹھیک ہے میں اسی طرح اسی لباس میں تجھے ملنے چلی آتی ہوں مگر تیری آنکھوں اور دل کی ہوس نے جب میرا بدن نوچا تو تو ناراض نہ ہونا کہ اس طرح کا ظاہری حسن و لطف سے لبریز موقع دنیا کا ہر مرد چاہتا ہے تو میری بات کو سمجھ تو رہا ہے نہ کہ میرا بھائی خدا گواہ ہے وہ کردار کا بہت پکا ہے اس کا بھی تو حق بنتا ہے کہ وہ عیش کے کچھ لمحے گزارے وہ بھی تو جانے عشق کا لطف کیا ہے کسی کو ایک انگلش جملہ بول کر اس سے ایسی امیدیں وابستہ کرنا جس سے عورت بھی خود پر شرما جائے اور مرد کو جنم دینے والی عورت اپنی کوکھ پر لعنت بھیجے کہ عورت نے انبیاء کو جنم دیا اور ان کی تربیت کر کے زمانے کی دکھی انسانیت کو ظلم و ستم سے نکالا اور میں نے ایک ایسے آدمی کو جنم دیا جو انسانیت ہی سے خالی ہے۔
اے میرے خوبرو عاشق! تو جو محبت کر رہا ہے اس میں ہوس کی بُو کے سوا کچھ نہیں کیا تیری ماں نے تجھے وہ قرآن نہیں پڑھایا جس میں مومن کی حیا کا ذکرکیا تو مرد مومن اور حضور ﷺ کا وہ امتی نہیں جس نے ایمان کے درجوں میں سے ایک درجہ حیا کا پایا ہو۔میری باتیں پڑھ کر تجھے غصہ آیا ہو گا کہ میں نے تیری بہن کا ذکر کیوں کیا لیکن ایمان کی بات ہے ہر باحیا بھائی کی یہ کیفیت ہی ہوتی ہے مگر ایسا ہونا کہ اپنی بہن کے علاوہ کسی بھی عورت کو شریف نہ سمجھنا یہ گندی سوچ اور تربیت کا نتیجہ ہے۔تو حضرت علی ؓ کا بہت ہی ماننے والا ہے جیسا کے تیرا تذکرہ اس معاشرے میں کیا جاتا ہے مگر کیا تو نے مولا کائنات کا یہ فرمان نہیں پڑھا”اپنی سوچ کو پانی کے قطروں کی طرح صاف رکھو کیونکہ جس طرح پانی کے قطروں سے دریا بنتا ہے اسی طرح سوچ سے ایمان بنتا ہے“۔کیا تیرے پاس جو ایمان ہے وہ دکھلاوے کا ہے حضرت علی ؓ کا سچا پیارا تیرے دل میں نہیں اور جیسا کرو گے ویسا بھرو گے والا قول بھی تو کسی عاقل کا ہے اس کا مطلب ہے تو اس کام کے انجام کے لیے تیار ہے اپنی ماں بہن کی ایسی عزت کا ہونا تیرے لیے عجیب نہیں ہو گا۔
میں تجھے تبلیغ نہیں کر رہی بس اتنا بتا رہی ہوں کہ تیری بہن گڈی جو کہ میری دوست ہے اس کو بھی ایک تجھ جیسے بے ایمان اور راہ بھٹکے نوجوان نے خط لکھا اور اسی پیڑ کے نیچے بلایا لیکن عین اسی وقت جب کہ میں تجھے خط دے رہی ہوں تیری بہن نے بھی اسے خط دیا اور اسے اس کی محبت کا جواب دیا کہ وہ اس سے محبت کرے گی انہی باتوں اور شرائط کے ساتھ جو میں تجھے لکھ رہی ہوں اگر تجھے یہ سب میری باتیں منظور ہیں تو جا اور جا کہ گڈی کو بھی ایسا کرنے کی اجازت دے دے جو تو مجھ سے چاہتا ہے کیوں کہ اس لڑکے کو بھی میں نے یہ ہی الفاظ گڈی سے لکھوا کے دئیے اور اگر میں ایسا نہ کرتی تو وہ لڑکا بھی راہ راست پر نہ آتا اور تیری بہن بھی گمراہ ہو چکی ہوتی۔۔اب آخری دو باتیں جن کا تو اپنے اللہ سے وعدہ کرنا۔تونے مجھ پر بری نظر ڈالی تو تیرے لیے اللہ نے یہ مکافات عمل والا سبق پیدا کیا۔اور میں نے تیری بہن کو بری راہ سے بچایا اس لیے میں بھی اللہ کی عطاکردہ ہمت سے تیری گمراہی اور اللہ کی ناراضگی والے جال سے بچ گئی ہوں۔اب اگر میرا تیری بہن پر احسان ہے تو پھر اس کو بھول کر اپنی گناہ کی ضد پر قائم رہنا چاہتا ہے تو اس دفعہ یاد رکھنا اللہ نے تجھے چار بہنیں اور ایک ماں دی ہے۔میں بھی اللہ سے دعا کروں گی کہ اللہ تجھے اور تیرے گھر والوں کو گمراہی اور ایسے گنا ہ سے بچائے اور تو بھی اللہ سے توبہ کر کہ حضرت علی ؓ جن سے تیری محبت مشہور ہے ان سے سچی اور دکھلاوے سے پاک محبت کرنے لگ جا اور ان جیسی عظیم اور پاک ہستی کی محبت میں کسی عورت کو نہ لا ایسا نہ ہو جس حوا نے آدم کو جنت سے نکلوایا ہے وہ تجھے اس دنیا میں کہیں کا نہ چھوڑے اور تیری وہ پگڑی جس پر تجھے مان ہے وہ خاک کا حصہ بن جائے اور تیرے گھر میں عورت کا جنم لینا گناہ سمجھا جانے لگے۔میں چاہتی تو اپنے حقیقی غیرت مند بھائی کو بتا دیتی مگر میں نے تجھے تیری بہن کی خاطر معاف کیا کیونکہ تیرے لیے جیسا کرو گے ویسا بھرو گے سمجھنا مشکل نہیں رہا۔اپنی بہن کو اس لڑکے کا مت پوچھنا ایسا نہ ہو کہ میرا بھائی بھی مجھ سے ایسی ضد کرے اس وقت سب سے اچھا حل اللہ کی بارگاہ میں سچی معافی ہے میں تجھے اللہ کے نام پر معاف کرتی ہوں اللہ سے بھی اس کی ایک سید زادی بندی کے متعلق غلط سوچ رکھنے کی معافی مانگ لینا۔
یہ میرا پہلا پیار کا خط ہے جس میں میں اعتراف کرتی ہوں کہ میں اللہ سے اس کے حبیب ﷺ سے پیار کرتی ہوں اگر جس چیز کی تو دعوت دیتا ہے یہ میرے نبی پاک ﷺ کی سیرت میں ہوتی تو میں اس پر عمل کرتی اور اگر ایسا عمل اور اس کی مثال اماں فاطمہ رض کی زندگی میں ملتی تو میں اس پر عمل کرتی اور اگر ان کی زندگی میں نہیں اور میری اور تیری والدہ کی زندگی میں ایسی ایک نہیں ہزار مثالیں بھی ہوتی تو بھی تو مجھے ہرگز اس دعوت کا قبول کرنے والا نہ پاتا
اللہ تیری بہنوں اور میری عزت کی حفاظت فرمائے
میں اللہ سے پیار کرتی ہوں
میں اللہ سے پیار کرتی ہوں
میں اللہ سے پیار کرتی ہوں،
والسلام
اللہ کی بندی
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امتی
امت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی.
بس ابن ربانی کہتا ہے......”اے آج کے لڑکے اس خط کی تشریح کی ضرورت نہیں تو جان گیا ہو گا کہ وہ لڑکا کیوں بے ہوش ہوا میں اس خط کو راز بناتا مگر آج کے لڑکے جو کر رہے ہیں وہ اس انجام کے انجام سے واقف نہیں اب ایک نصیحت تجھے بھی کرتا ہوں اگر تو اس خط کو پڑھنے کے بعد اپنی طبیعت میں کچھ بھی فرق پاتا ہے تو اپنے ان دوستوں کو ضرور پڑھانا جو ایسی برائی کی طرف جا رہے ہیں۔۔امید ہے کے وہ رک جائیں گے......اللہ سے دعا بھی کرنا ان کے حق میں..... اور بس ابن ربانی کہتا ہے......تیری ماں،بہن،بیوی اور بیٹی کی عزت تیرے ہاتھ میں ہے اگر ابلیس پھر بھی تجھے ورغلانے میں کامیاب ہو گیا تو جان لے تو نے لوگوں کو اپنے گھر زنا کی دعوت دے دی..... اور دنیا کے بازار میں اچھا برا سب ملتا ہے تیری مرضی ہے

Labels:

Monday, 11 February 2019

مجھے اپنی مسلمان عورتوں سے کچھ کہنا ہے


مجھے اپنی مسلمان عورتوں سے کچھ کہنا ہے


مجھے اپنی مسلمان عورتوں سے کچھ کہنا ہے،، خدا کے لیے ہوش کرو، یہ آزادی آزادی کا نعرہ نہ لے ڈوبے تمہیں..
مجھے اس وقت بہت رونا آیا تھا۔
جب آج سے 15 سال پہلے، انٹرنیٹ کیفے سکینڈل کے باعث، اکلوتی بیٹی کی پنکھے سے لٹکی لاش سے باپ لپٹ کر زارو قطار رو رہا تھا۔
مجھے اس وقت بھی رونا آیا، جب ایک خبیث لڑکے نے، ایک لڑکی سے ناراضگی پر، اس کی برہنہ ویڈیو اپ لوڈ کردی، اور اس بے چاری کو اپنی نبض کاٹ کر دنیا سے جانا پڑا۔
مجھے اس وقت بھی رونا آیا، جب ایک لڑکی، ایک لڑکے کے سامنے بے لباس رو رہی تھی، کہ میری ویڈیو ڈیلیٹ کردو۔
اور وہ کہہ رہا تھا کہ میرے دوستوں کو بھی خوش کرو۔
اور اس رات وہ چھت سے کود کر مر گئی۔
مجھے اس وقت بھی رونا آیا، جب ایک لڑکی اپنی سہیلی کے ہمراہ، اپنے محبوب سے ملنے گئی اور وہاں اجتماعی زیادتی کا نشانہ بن کر سسک سسک کر مر گئیں۔
اور ہسپتال والوں نے جب فون کیا تو، والدین نے کہا ہماری تو کوئی بیٹی ہی نہیں۔
مجھے اس دن بھی رونا آیا، جب ایک لڑکی کو، اس کےمحبوب نے نشہ آور جوس پلا کر، اپنے دوستوں کے سامنے پیش کیا۔
اور اس غم کی ماری نے، ایک ٹرک تلے آکر جان دیدی۔
مجھے ان سب لڑکیوں کی حالت پر رونا آتا ہے، جو گھر سے محبوب کو ملنے نکلتی ہیں۔ اور آج کسی قحبہ خانے میں موت کی دعائیں مانگ رہی ہیں۔
یاد رکھیں مرد تو جسم کا بھوکا
ہے۔ وہ عورت کو نوچ بھی لیتا ہے۔ کاٹ بھی لیتا ہے۔
اسے انسان سے کتا بننے میں دیر نہیں لگتی۔
لیکن اسے ایسا بننے کا موقع عورت دیتی ہے۔
اور سمجھتی ہے کہ میری عزت کا رکھوالا بنے گا۔
لیکن وہ جانتی نہیں کتا وفادار ہوتا ہے۔
لیکن مرد درندہ بن جائے تو بہت خطرناک ہوتا ہے۔
😢😢😢😢😭😭😭😭
اس لئے بچ کر رہیں۔
ہر مرد مرد نہیں ہوتا۔
کچھ شیطان بھی ہوتے ہیں۔

Labels:

Saturday, 15 September 2018

محبت یا فتنہ؟

محبت یا فتنہ؟


محبت یا فتنہ؟

کالج میں ایک لڑکے نے مجھ سے اظہار محبت کیا. اسے میں نے بہت سمجھایا لیکن اُسے ذرا اثر نہیں ہوا. وہ کٹر ٹھرکی تھا یا پھر اس بات پر یقین رکھتا تھا کہ کوشش جاری رکھو، ایک نہ ایک دن مان ہی جائے گی. میں اُس کی باتیں سن کر ہنستی تھی، وہ دل میں خوش ہوتا تھا کہ ہنسی تو پھنسی، پر اُسے یہ کہاں معلوم تھا میری ہنسی کا مطلب ہے کہ ہنسوں تو کبھی نہ پھنسوں. آج پھر وہ چلا آیا تھا. اچھا تو تمھارا یہ دعوی ہے کہ تم محبت کرتے ہو مجھ سے، کیا ہوتی ہے محبت؟ کچھ معلوم ہے اس کے بارے میں. جس سے محبت ہو اس کے حقوق کا علم ہے تمھیں. یہ فرائض سرانجام دینے کے قابل ہو تم. اُس کے چہرے پے حیرانیوں کے سائے لہرانے لگے. اُسے ان گہری باتوں کا علم ہی کہاں تھا. وہ تو بس فلموں، ڈراموں کی آغوش میں جوان ہو کر ہزاروں نوجوانوں کی طرح اپنی فطری ضروریات کے ہاتھوں مجبور ہو کر محبت کا نام اپنی روح میں سمو چکا تھا.
سچ میں جب سے تمھیں دیکھا ہے، میرا چین و سکون لٹ گیا ہے. ہر جگہ تم ہی دکھائی دیتی ہو ،میں سچی محبت کرتا ہوں، پلیز مان جاؤ نا. کیا مان جاؤں؟ میں نے بے نیازی سے پوچھا. تم بھی محبت کر لو مجھ سے، بہت خوش رکھوں گا تمھیں، ہر بات مانوں گا. اچھا میری ہر بات مانو گے. ہاں! ہر بات مانوں گا، تم نہیں جانتی تمھاری یہ عام سی آنکھیں میرے لیے کتنی خاص ہیں. لوگوں کو تو محبوبہ کی آنکھیں جھیل جیسی گہری لگتی ہیں، تم انھیں عام کہہ رہے ہو. آپ نے خود ہی تو کہا تھا کہ بناوٹی باتیں آپ کو پسند نہیں، یہ سب جھوٹی تعریفیں ہوتی ہیں، اس لیے سچ بتا رہا ہوں کہ چاہے یہ آنکھیں عام سی ہیں پر میرے لیے تو خاص ہیں. خاص کیوں ہیں؟ وجہ بتاؤ. کیونکہ ان سے ذہانت ٹپکتی ہے، جب آپ کے لب پھول برساتے ہیں تب یہ بھی پورا ساتھ دیتی ہیں، ایسا لگتا جیسے یہ بھی بول رہی ہوں.. اوہ! تو محبت کی پہلی سیڑھی چڑھ ہی گئے ہو تم. اچھا بتاؤ، میری ہر بات مانو گے؟ ہاں ہر بات.. تو پھر میری محبت اپنے دل سے نکال دو، اگر تم سچی محبت کرتے ہو مجھ سے تو میری یہ بات بھی مانو گے.
اُس کی آنکھوں میں پانی جمع ہونے لگا تھا جسے اندر ہی اندر جذب کرنے کی وہ ناکام کوشش کر رہا تھا. ٹھیک ہے آئندہ آپ نہیں دیکھو گی مجھے.. یہ کہہ کر وہ خاموشی سے چلا گیا. اس لیےکہ وہ مجھے یقین دلانا چاہتا تھا کہ واقعی مجھ سے سچی محبت کرتا ہے. میرے لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی. میں نے دل میں سوچا کہ تم مجھے بیوقوف نہیں بنا سکتے. کافی دن گزر گئے، اُس نے مجھ سے کوئی بات نہیں کی، کوئی کال نہ میسیج. پھر ایک دن وہ خود ہی میرے پاس چلا آیا. میں نے تمہاری محبت اپنے دل سے نکال دی ہے. اب تم میرے لیے ایک عام عورت ہو. لفظ عورت سن کر میں کھلکھلا کر ہنس پڑی.. پتہ میری محبت کیوں نکلی ہے تمہارے دل سے؟ کیونکہ یہ محبت کبھی تھی ہی نہیں، محبت کبھی دل سے نہیں نکلتی بشرطیکہ سچی ہو. محبوب کے ساتھ حقیقی پل تو دور کی بات، کبھی خیالوں میں بھی اس کا ہاتھ تک پکڑنا نصیب نہ ہو، اور نہ ہی وہ شدتوں کو جانتا ہو، پھر بھی دل سے محبت نہیں نکلتی. وہ شرمندہ سا ہوا. تمھیں کیا پتہ میں کتنا رویا ہوں؟ کتنی راتیں جاگ کر گزاری ہیں؟ کتنا سوچا ہے؟ پھر میں نے خود کو سمجھایا کہ میں تمہاری بات مانوں گا، فریادی بن کر اب نہیں آؤں گا، اس لیے کہہ رہا ہوں محبت ختم ہو گئی. شادی تو ویسے بھی تمہارے ساتھ نہیں ہو سکتی.
کیوں مجھے خارش ہے؟ میری رگ مزاح پھڑک اٹھی. پھر ہنستے ہوئے اس نے بتایا کہ ہمارے خاندان والے برادری سے باہر شادی نہیں کرتے. تو کیا تمھارے خاندان والے برادری سے باہر محبت کر لیتے ہیں؟ وہ چپ رہا، کیا جواب دیتا. خیر میں تم سے دوستی کرنا چاہتا ہوں، تم بہت اچھی لڑکی ہو، اگر تم میری محبت میں گرفتار ہو جاتیں تو میری نظروں میں اپنی اہمیت کھو دیتیں، اور ہم لڑکے واقعی ایسی لڑکیوں سے محبت تو خوب کرتے ہیں پر شادی نہیں. اب کے حیران ہونے کی باری میری تھی. میری پلاننگ کامیاب ہوئی تھی. وہ سچ مان رہا تھا. پر میں اس کی دوسری چال بھی سمجھ گئی. مرد کو بسس سیٹیسفیکشن چاہیے ہوتی ہے، چاہے ذہنی ہو یا جسمانی، جب اُسے یقین ہو گیا کہ میں واقعی ہاتھ آنے والی نہیں تو اُس نے دوستی کا ہاتھ بڑھایا. وہ میرے ساتھ باتوں سے ذہنی تسکین چاہتا تھا، وقت اچھا گزارنا چاہتا تھا. اچھا دوستی کر کے کیا کریں گے؟ اچھے دوست کیسے ہوتے ہیں؟ میں نے اس سے پوچھا. ہم اپنی ہر بات ایک دوسرے سے شیئر کیا کریں گے، میں آپ کو گفٹ دیا کروں گا، اکھٹے شاپنگ پر جائیں گے، خوب گھومیں پھریں گے، کھابے اڑائیں گے، دکھ سکھ کے ساتھی، بالکل اچھے دوست بنیں گے ہمیشہ ساتھ رہنے والے.
محبت کی جگہ اب دوستی کا لفظ آ گیا تھا مگر ترجیحات اور مقاصد و معاملات وہی تھے. ایک لڑکا لڑکی کبھی دوست نہیں ہو سکتے، ہاں کلاس فیلو ہو سکتے ہیں، جب سٹڈی ختم ہوئی رابطہ ختم. لیکن دوستی تو وہ ہوتی جو مستقل رہے. محبت تم نہیں کرتی، دوستی پر تمھیں اعتراض ہے. اچھا منہ بولی بہن بن جاؤ. میں اتنی اچھی لڑکی کھونا نہیں چاہتا. میں بھی اتنی اچھی لڑکی گنوانا نہیں چاہتی. میں نے دل میں سوچا. یہ اس کا آخری حربہ تھا محبت اور دوستی میں دال نہ گلی تو منہ بولی بہن.. اچھا بھائی بہن بن کر کیا ہوگا؟ میں نے پوچھا دونوں ساتھ وقت گزارا کریں گے، اپنی ہر بات بتایا کریں گے، صبح صبح اکٹھے سیر کو جایا کریں گے، جاگنگ کریں گے، ٹینیس کھیلیں گے، بہت خوش رہیں گے دونوں. یہ زندگی بورننگ نہیں لگتی تمھیں جو گزار رہی ہو، تھوڑا سا بدلو تم خود کو. دیکھنا کتنی خوشیاں ملتی ہیں، سچی بھائی بہن والا رشتہ ہوگا، کوئی نقصان نہیں اور اس دوران تم بہن لفظ کا سہارا لے کر مجھ سے اپنی ذہنی تسکین حاصل کرتے رہو، نظروں سے ہی میرے چہرے کو چھوتے رہو، ٹینس کھیلتے ہوئے میرے بدن کے اتار چڑھاؤ کو للچائی نگاہوں سے دیکھتے رہو، تمھارا وقت رنگین ہو جائے گا. میں خاموش نظروں سے کہہ رہی تھی، وہ کن اکھیوں سے دیکھتا ہوا جواب کا منتظر تھا
سوری میری خوشیاں، کھابے، سیر، جاگنگ، زندگی کے رنگ، ٹویسٹ، قہقہے، دکھ سکھ کسی غیر مرد کے محتاج نہیں. میں اپنے پاپا کے ساتھ سیر کو جاتی ہوں. باپ کی شفقت بھری گفتگو بہت لطف دیتی ہے. میری ماں میری سب سے اچھی دوست ہے، میرے دکھ سکھ کی ساتھی ہے. میری سکھیاں کھابے اُڑانے میں لاجواب ہیں، اُن کے ساتھ میرا وقت بہت اچھا گزرتا ہے. میرے ٹیچرز میرے رہنما ہیں. اپنے بھائی کے ساتھ میں گھنٹوں باتیں کرتی ہوں، معصوم شرارتیں دو منٹ میں ناراض دو منٹ میں راضی، ایک دوسرے کے بنا ذرا وقت نہیں گزرتا، اس کے پیچھے بائیک پر بیٹھے ہوئے میں آزاد فیل کرتی ہوں، اس کے ساتھ شاپنگ کا جواب نہیں. میں بہت خوش ہوں. ایک نیا رشتہ بنا کر میں ان سب رشتوں کی مٹھاس نہیں کھونا چاہتی.. پتہ نہیں لڑکیوں کی حسین زندگی غیر مردوں سے ہی کیوں جڑی ہوتی ہے؟ خوبصورت خوابوں کے چکر میں عمر بھر کے لیے آنکھیں زخمی کروا لیتی ہیں. اتنا کہہ کر میں چلی آئی. اس کا ری ایکشن کیسا تھا؟ میں نے دیکھا نہیں، لیکن اسے ایک سبق ضرور مل گیا تھا. میں نے گھر آ کر سجدہ شکر ادا کیا اور آنکھ اشکبار ہو گئی. میرے اللہ تو مجھےایسے ہی ثابت قدم رکھنا، اس عہد کی پیداوار ہو کر بھی میرے قدم ذرا نہ ڈگمگائیں

Labels:

پھنکار

پھنکار


پھنکار

ایک بزرگ سے کسی سانپ نے بیعت کر لی تھی۔ انہوں نے اس سے یہ عہد لیا کہ کسی کو ڈسنا نہیں جانوروں نے جو دیکھا کہ یہ کسی کو کچھ کہتا ہی نہیں ہے تو نڈر ہو کر سب نے اس کو مارنااور تنگ کرنا شروع کر دیا۔ چند روز کے بعد وہ بزرگ کے پاس آیا تو دیکھا بہت ہی بری حالت میں ہے۔ پوچھا کیا حال ہے؟ کہا آپ نے کاٹنے سے منع کر دیا تھاجانوروں کوجب یہ خبر ملی تو اب سب مجھے تنگ کرنے لگے۔
فرمایا!’’میں نے کاٹنے سے ہی تو منع کیا ہے پھنکارنے سے منع نہیں کیا ہے، اب سے جوجانور پاس آئے فوراً پھنکار دیا کروکہ وہ بھاگ جائے۔اس روز سے غریب کو چین ملا اسی طرح بزرگوں کو بھی چاہئے کہ کبھی کبھی پھنکار دیا کریں تاکہ لوگ بلاوجہ زیادہ تنگ نہ کریں۔ نیچے سکرول کریں اور زندگی بدلنے والی پوسٹس پڑھیں۔

Labels:

Wednesday, 12 September 2018

حضرت علی رضی اللہ عنہ کا وہ قول جس پرعمل کر کے جاپانی دنیا کی سب سے ترقی یافتہ قوم بن گئے



حضرت علی رضی اللہ عنہ کا وہ قول جس پرعمل کر کے جاپانی دنیا کی سب سے ترقی یافتہ قوم بن گئے ۔۔ کیا آپ جانتےہیں کہ حضرت علیؓ کا وہ قول کونسا ہے؟



کسی بھی قوم کی ترقی کا راز اس قوم کی تعلیم و تربیت پر منحصر ہوتا ہے اور آپ یہ جان کر حیران رہ جائیں گے کہ شمالی یورپ کا ایک چھوٹا سا ملک فن لینڈ بھی ہے جو رقبے کے لحاظ سے 65 جبکہ آبادی کے اعتبار سے دنیا میں 114 ویں نمبر پر ہے۔ ملک کی کل آبادی 55 لاکھ کے لگ بھگ ہے لیکن آپ کمال دیکھیں اس وقت تعلیمی درجہ بندی کے اعتبار سےفن لینڈ پہلے نمبر پر ہے جبکہ ” سپر پاور ” امریکا 20ویں نمبر پر ہے۔2020 ء تک فن لینڈ


دنیا کا واحد ملک ہوگا جہاں مضمون ( سبجیک...


ٹ ) نام کی کوئی چیز اسکولوں میں نہیں پائی جاتی، فن لینڈ کا کوئی بھی اسکول زیادہ سے زیادہ 195 بچوں پر مشتمل ہوتا ہے جبکہ 19 بچوں پر ایک ٹیچر۔ دنیا میں سب سے لمبی بریک بھی فن لینڈ میں ہی ہوتی ہے، بچے اپنے اسکول ٹائم کا 75 منٹ بریک میں گزارتے ہیں، دوسرے نمبر پر 57 منٹ کی بریک نیو یارک کے اسکولوں میں ہوتی ہے جبکہ ہمارے یہاں اگر والدین کو پتہ چل جائے کہ کوئی اسکول بچوں کو ” پڑھانے” کے بجائے اتنی لمبی بریک دیتا ہے تو وہ اگلے دن ہی بچے اسکول سے نکلوالیں۔خیر، آپ دلچسپ بات ملاحظہ کریں کہ پورے ہفتے میں اسکولوں میں محض 20 گھنٹے ” پڑھائی ” ہوتی ہے۔ جبکہ اساتذہ کے 2 گھنٹے روز اپنی ” اسکلز ” بڑھانے پر صرف ہوتے ہیں۔ سات سال سے پہلے بچوں کے لیےپورے ملک میں کوئی اسکول نہیں ہے اور پندرہ سال سے پہلے کسی بھی قسم کا کوئی باقاعدہ امتحان بھی نہیں ہے۔ ریاضی کے ایک استاد سے پوچھا گیا کہ آپ بچوں کو کیا سکھاتے ہیں تو وہ مسکراتے ہوئے بولے ” میں بچوں کو خوش رہنا اور دوسروں کو خوش رکھنا سکھاتا ہوں، کیونکہ اس طرح وہ زندگی کہ ہر سوال کو با آسانی حل کرسکتے ہیں “۔آپ جاپان کی مثال لے لیں تیسری جماعت تک بچوں کو ایک ہی مضمون سکھا یا جاتا ہےاور وہ ” اخلاقیات ” اور ” آداب ” ہیں۔ حضرت علیؓ نے فرمایا “جس میں ادب نہیں اس میں دین نہیں “۔ مجھے نہیں معلوم کہ جاپان والے حضرت علیؓ کو کیسے جانتے ہیں اور ہمیں ابھی تک ان کی یہ بات معلوم کیوں نہ ہو سکی۔


بہر حال، اس پر عمل کی ذمہ داری فی الحال جاپان والوں نے لی ہوئی ہے۔ ہمارے ایک دوست جاپان گئے اور ایئر پورٹ پر پہنچ کر انہوں نے اپنا تعارف کروایا کہ وہ ایک استاد ہیںاور پھر ان کو لگا کہ شاید وہ جاپان کے وزیر اعظم ہیں۔اشفاق احمد صاحب مرحوم کو ایک دفعہ اٹلی میں عدالت جانا پڑا اور انہوں نے بھی اپنا تعارف کروایا کہ میں استاد ہوں وہ لکھتے ہیں کہ جج سمیت کورٹ میں موجود تمام لوگ اپنی نشستوں سے کھڑے ہوگئے اس دن مجھے معلوم ہوا کہ قوموں کی عزت کا راز استادوں کی عزت میں ہے۔


یہ ہے قوموں کی ترقی اور عروج و زوال کا راز۔جاپان میں معاشرتی علوم ” پڑھائی” نہیں جاتی ہے کیونکہ یہ سکھانے کی چیز ہےپڑھانے کی نہیں اور وہ اپنی نسلوں کو بہت خوبی کے ساتھ معاشرت سکھا رہے ہیں۔ جاپان کے اسکولوں میں صفائی ستھرائی کے لیے بچے اور اساتذہ خود ہی اہتمام کرتے ہیں، صبح آٹھ بجے اسکول آنے کے بعد سے 10 بجے تک پورا اسکول بچوں اور اساتذہ سمیت صفائی میں مشغول رہتا ہے۔دوسری طرف آپ ہمارا تعلیمی نظام ملاحظہ کریںجو صرف نقل اور چھپائی پر مشتمل ہے،


ہمارے بچے ” پبلشرز ” بن چکے ہیں۔ آپ تماشہ دیکھیں جو کتاب میں لکھا ہوتا ہے اساتذہ اسی کو بورڈ پر نقل کرتے ہیں، بچے دوبارہ اسی کو کاپی پر چھاپ دیتے ہیں، اساتذہ اسی نقل شدہ اور چھپے ہوئے مواد کو امتحان میں دیتے ہیں، خود ہی اہم سوالوں پر نشانات لگواتے ہیںاور خود ہی پیپر بناتے ہیں اور خود ہی اس کو چیک کر کے خود نمبر بھی دے دیتے ہیں،بچے کے پاس یا فیل ہونے کا فیصلہ بھی خود ہی صادر کردیتے ہیں اور ماں باپ اس نتیجے پر تالیاں بجا بجا کر بچوں کے ذہین اور قابل ہونے کے گن گاتے رہتے ہیں،


جن کے بچے فیل ہوجاتے ہیں وہ اس نتیجے پر افسوس کرتے رہتے ہیں اور اپنے بچے کو ” کوڑھ مغز ” اور ” کند ذہن ” کا طعنہ دیتے رہتے ہیں۔ ہم 13، 14 سال تک بچوں کو قطار میں کھڑا کر کر کے اسمبلی کرواتے ہیں اوروہ اسکول سے فارغ ہوتے ہی قطار کو توڑ کر اپنا کام کرواتے ہیں، جو جتنے بڑے اسکول سے پڑھا ہوتا ہے قطار کو روندتے ہوئے سب سے پہلے اپنا کام کروانے کا ہنر جانتا ہے ۔طالبعلموں کا اسکول میں سارا وقت سائنس ” رٹتے ” گزرتا ہے


اور آپ کو پورے ملک میں کوئی ” سائنس دان ” نامی چیز نظر نہیں آئے گی کیونکہ بدقسمتی سے سائنس ” سیکھنے ” کی اور خود تجربہ کرنے کی چیز ہےاور ہم اسے بھی ” رٹّا” لگواتے ہیں۔آپ حیران ہوں گے میٹرک کلاس کا پہلا امتحان 1858ء میں ہوا اور برطانوی حکومت نے یہ طے کیا کہ بر صغیر کے لوگ ہماری عقل سے آدھے ہوتے ہیں اس لیے ہمارے پاس ” پاسنگ مارکس ” 65 ہیں


تو بر صغیر والوں کے لیے 32 اعشاریہ 5 ہونے چاہئیں۔ دو سال بعد 1860ء میں اساتذہ کی آسانی کے لیے پاسنگ مارکس 33 کردیے گئےاور ہم میں بھی ان ہی 33 نمبروں سے اپنے بچوں کی ذہانت کو تلاش کرنے میں مصروف ہیں۔علامہ اقبال ؒ کے شعر کا یہ مصرعہ اس تمام صورتحال کی صیح طریقے سے ترجمانی کرتا نظر آتا ہے کہ۔۔شاخ نازک پر بنے گا جو آشیانہ ، ناپائیدار ہو گا۔

Labels: